ہمارے ہنر کی تاریخی جڑیں: ایک گہرا سفر

صدیوں پرانا ورثہ اور اس کی اہمیت
یار، جب بھی میں کسی دستکاری کی دکان پر جاتی ہوں تو ایک عجیب سی خوشبو اور رنگوں کی دنیا میں کھو جاتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ صرف چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ ان میں ہمارے آباؤ اجداد کی محنت، ان کا فن اور ان کی زندگیاں چھپی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں دستکاری کا فن صدیوں پرانا ہے، اور اس کی جڑیں ہماری تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ یہ فن صرف خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ ہماری ثقافت، ہمارے رسم و رواج اور ہماری شناخت کو بھی بیان کرتا ہے۔ یہ وہ ورثہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے، اور ہر آنے والی نسل نے اس میں اپنی جدت اور تخلیقی صلاحیتوں کا رنگ بھرا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک دادا اپنے پوتے کو لکڑی پر نقش و نگار بنانا سکھا رہا ہوتا ہے، اور یہ منظر دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔ یہ صرف ہنر کی منتقلی نہیں بلکہ ایک ثقافتی تسلسل ہے جو ہمارے معاشرے کو جوڑے رکھتا ہے۔ اس ورثے کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اس کی خوبصورتی اور گہرائی سے واقف ہو سکیں۔
مغلوں سے لے کر آج تک کا سفر
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ خوبصورت ہنر ہمارے پاس کہاں سے آیا؟ مجھے لگتا ہے کہ اس کی کہانی مغل دور سے شروع ہوتی ہے، جب بادشاہوں نے فنکاروں اور کاریگروں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ ان کے درباروں میں ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے گئے جو آج بھی ہماری شان ہیں۔ اس کے بعد انگریزوں کے دور میں بھی کچھ روایات قائم رہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ کیسے پہلے ہر چیز ہاتھ سے بنائی جاتی تھی، اور ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ہنر مند ہوتا تھا۔ آج بھی اگر آپ اندرون شہروں کی گلیوں میں جائیں تو آپ کو ایسی چھوٹی چھوٹی دکانیں ملیں گی جہاں وہی پرانے انداز میں کام ہو رہا ہوتا ہے، اور وہاں سے نکلنے والی چیزوں میں ایک خاص اپنائیت ہوتی ہے۔ مجھے خود کئی بار ایسا محسوس ہوا ہے کہ ہاتھ سے بنی ہوئی ایک چھوٹی سی چیز بھی ہمیں ماضی کے کسی خوبصورت دور میں لے جاتی ہے۔ یہ ہمارے ہنرمندوں کی محنت اور لگن کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ فن آج بھی زندہ ہے اور وقت کے ہر امتحان سے گزر کر ہماری شناخت کا حصہ بنا ہوا ہے۔
علاقائی پہچان: پاکستان کے دستکاری کے رنگ
ہر علاقے کی اپنی کہانی
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر علاقے کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے اور یہی بات اس کے دستکاری کے فن میں بھی نظر آتی ہے۔ جب میں ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرتی ہوں، تو مجھے ہر جگہ کے ہاتھ سے بنے ہوئے سامان میں ایک الگ ہی جادو دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً، سندھ کی ‘رلی’ اور ‘اجرک’ کو ہی لے لیں، ان کے رنگ اور ڈیزائن اتنے جاندار ہوتے ہیں کہ آپ انہیں دیکھتے ہی پہچان جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے سکھر سے ایک پرانی رلی خریدی تھی، اور اس کی بناوٹ اتنی خاص تھی کہ آج بھی وہ میرے گھر کی زینت بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح، بلوچستان کی کڑھائی کی بات کریں تو اس میں ایک خاص قسم کی پختگی اور رنگوں کا امتزاج ہوتا ہے جو وہاں کی ثقافت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ ایک گہرا احساس ہوتا ہے کہ ہمارے لوگ کتنے ہنر مند ہیں۔
ملتان سے سندھ تک، ہنر کا تنوع
اگر آپ پاکستان کے دستکاری کے تنوع کو دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو مختلف علاقوں کا دورہ کرنا پڑے گا۔ ملتان کی اونٹ کی کھال سے بنی لیمپ اور آرائشی اشیاء اپنی مثال آپ ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر وہ چھوٹے چھوٹے لیمپ بہت پسند ہیں جو وہاں کے کاریگر اتنی مہارت سے بناتے ہیں۔ پنجاب میں، خاص طور پر ہالہ اور گجرات جیسے علاقوں میں، مٹی کے برتن بنانے کا فن صدیوں سے رائج ہے، اور ان برتنوں میں ایک خاص قسم کی تازگی اور سادگی ہوتی ہے۔ شمال میں گلگت بلتستان کے علاقے میں لکڑی پر کندہ کاری کی جاتی ہے، اور وہاں کے قالین اتنے شاندار ہوتے ہیں کہ آپ انہیں دیکھتے ہی ان کے فین ہو جاتے ہیں۔ میں نے خود کشمیر کے بنے ہوئے شال دیکھے ہیں، اور ان کی گرمی اور خوبصورتی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ سب ہمارے ثقافتی تنوع کی بہترین مثالیں ہیں جو ہمارے ہنرمندوں کی بے پناہ صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ میرے خیال میں، یہ چیزیں صرف سامان نہیں بلکہ ہمارے ملک کے روح کی عکاسی کرتی ہیں۔
| علاقہ | مشہور دستکاری | خاصیت |
|---|---|---|
| سندھ | رلی، اجرک، ہاتھ کی کڑھائی | روشن رنگ، پیچیدہ ڈیزائن، جیوومیٹرک پیٹرنز |
| پنجاب (ملتان) | اونٹ کی کھال کے لیمپ، مٹی کے برتن | قدرتی مواد، روایتی نقش و نگار، پائیداری |
| بلوچستان | کڑھائی شدہ کپڑے، قالین، جیولری | گہرے رنگ، ہاتھ کی بنی دھات کی اشیاء |
| کشمیر | شال، قالین، لکڑی کی کندہ کاری | نازک کام، بہترین بناوٹ، اعلیٰ معیار |
| گلگت بلتستان | لکڑی کی کندہ کاری، اون کے لباس | پہاڑی ثقافت کی عکاسی، مضبوط ساخت |
ہمارے کاریگروں کی معاشی طاقت
روزگار کے مواقع اور خواتین کا کردار
دوستو، ہم اکثر دستکاری کی خوبصورتی پر تو بات کرتے ہیں، لیکن کبھی اس کے معاشی پہلو پر غور کیا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ فن صرف جمالیات کا ذریعہ نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کے لیے روزگار کا ایک بڑا وسیلہ بھی ہے۔ خاص طور پر ہماری دیہی خواتین کے لیے یہ معاشی خود مختاری کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے گاؤں کی خواتین اپنے گھروں میں بیٹھ کر خوبصورت کڑھائی کرتی ہیں، چادریں بناتی ہیں اور پھر انہیں شہروں میں یا آن لائن فروخت کرتی ہیں۔ یہ ان کے لیے صرف آمدنی کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی اپنی پہچان اور خودمختاری کا احساس بھی دلاتا ہے۔ یہ انہیں موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹا سکیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہمارا یہ قدیم ہنر آج بھی اتنے لوگوں کی زندگیاں بدل رہا ہے اور انہیں باوقار طریقے سے کمانے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔
مقامی معیشت کی مضبوطی
ہاتھ سے بنی چیزوں کا فروغ صرف انفرادی سطح پر فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ یہ ہماری مقامی معیشت کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ جب ہم مقامی طور پر بنی ہوئی کوئی چیز خریدتے ہیں، تو ہم دراصل اس کاریگر کی محنت کو سراہ رہے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی معیشت میں بھی حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ یہ پیسہ مقامی سطح پر رہتا ہے اور اس سے چھوٹی صنعتوں کو فروغ ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے ہالہ سے ہاتھ سے بنے برتن خریدے تھے، اور مجھے یہ سوچ کر بہت اچھا لگا کہ میرے ان پیسوں سے ایک کاریگر کے خاندان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ یہ چیزیں بیرون ملک بھی بہت پسند کی جاتی ہیں، اور یوں یہ ہمارے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا بھی ایک ذریعہ بنتی ہیں۔ اس سے دنیا بھر میں ہمارے ملک کی ثقافتی پہچان بھی مضبوط ہوتی ہے۔ میرے خیال میں، یہ ایک ایسا چکر ہے جو سب کے لیے فائدہ مند ہے۔
جدید دور میں دستکاری کا نیا روپ
آن لائن پلیٹ فارمز اور عالمی رسائی
وقت کے ساتھ سب کچھ بدل رہا ہے اور ہماری دستکاری بھی اس سے پیچھے نہیں ہے۔ مجھے تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے کاریگر اب جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے اپنے فن کو دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ آج کل آن لائن پلیٹ فارمز جیسے ‘ایٹسی’ (Etsy) یا فیس بک اور انسٹاگرام کی مدد سے یہ لوگ اپنی مصنوعات کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی بیچ رہے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک چھوٹے سے شہر کے کاریگر کو دیکھا جو صرف اپنے گاؤں میں اپنا سامان بیچتا تھا، لیکن اب وہ آن لائن اپنے کسٹمرز بنا چکا ہے اور اس کی بنائی ہوئی چیزیں یورپ تک جا رہی ہیں۔ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ہمارے ہنر کو عالمی سطح پر پہچان ملے اور ہمارے کاریگروں کو ان کی محنت کا صحیح صلہ ملے۔ یہ وہ پل ہے جو قدیم ہنر کو جدید دنیا سے جوڑ رہا ہے اور مجھے اس کی بہتری میں حصہ لیتے ہوئے بہت خوشی ہوتی ہے۔
روایتی ہنر میں جدید ڈیزائن کا امتزاج

صرف آن لائن فروخت ہی نہیں، بلکہ ہمارے ہنرمند اب روایتی ہنر کو جدید ڈیزائن کے ساتھ بھی ملا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، پرانے طرز کی کڑھائی کو اب جدید لباس یا ہوم ڈیکور کی چیزوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے وہ چیزیں زیادہ پرکشش اور مارکیٹ کے مطابق بن رہی ہیں۔ میں نے خود کئی ایسے نوجوان ڈیزائنرز کو دیکھا ہے جو پرانے موتیف کو نئے انداز میں پیش کر رہے ہیں اور اس سے ایک نیا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے بلکہ ہمارے ہنر کو وقت کے ساتھ چلنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ میرے خیال میں، یہ ایک ایسا فن ہے جو اپنی اصلیت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی جدت کو اپنا سکتا ہے، اور اسی میں اس کی بقا اور ترقی کا راز ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ تبدیلی کو مثبت انداز میں کیسے اپنایا جائے۔
آنے والا کل: دستکاری کے روشن امکانات
حکومتی اقدامات اور عالمی پذیرائی
مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ اب ہماری حکومت بھی اس قدیم ہنر کی اہمیت کو سمجھ رہی ہے اور اس کے فروغ کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ حال ہی میں کشمیری دستکاری پر ٹیکسوں میں کمی جیسے اقدامات سے تو لگتا ہے کہ ہمارے کاریگروں کو مزید حوصلہ افزائی ملے گی۔ مجھے امید ہے کہ یہ اقدامات ہمارے ہنر کو نہ صرف مقامی طور پر بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی اپنی جگہ بنانے میں مدد دیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارے دستکاری کو بہت سراہا جاتا ہے، اور یہ ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔ جب کوئی غیر ملکی ہمارے ہاتھ سے بنی چیزوں کی تعریف کرتا ہے تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں، یہ عالمی پذیرائی ہمارے ہنرمندوں کو مزید محنت اور تخلیقی کام کرنے پر اکساتی ہے اور اس سے ہمارے ملک کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ یہ سب ہمارے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ ہم اپنے ورثے کو دنیا کے سامنے نمایاں کریں۔
نوجوان نسل کی دلچسپی اور نئی راہیں
ایک وقت تھا جب مجھے لگتا تھا کہ شاید نئی نسل ہاتھ کے کام میں اتنی دلچسپی نہیں لے گی، لیکن اب میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس فن کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔ بہت سے نوجوان اب دستکاری کو ایک کیریئر کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں ایک یونیورسٹی کے فیسٹیول میں گئی تھی، اور وہاں طلباء نے ہاتھ سے بنی ہوئی اتنی خوبصورت چیزیں پیش کی تھیں کہ میں حیران رہ گئی۔ یہ ایک بہت ہی مثبت علامت ہے کہ ہمارے ہنر کا مستقبل روشن ہے۔ نوجوان نسل نہ صرف اس فن کو زندہ رکھ رہی ہے بلکہ اس میں نئے خیالات اور جدید تکنیک بھی شامل کر رہی ہے۔ یہ سب ہمارے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے سالوں میں ہماری دستکاری مزید ترقی کرے گی اور دنیا میں اپنا لوہا منوائے گی۔
اپنی دستکاری کو کیسے فروغ دیں؟
سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال
اگر آپ خود بھی دستکاری کے کام سے وابستہ ہیں یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس میں ہنر مند ہے، تو میری ایک چھوٹی سی ٹپ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ مجھے خود یاد ہے کہ میں نے اپنے شروع کے دنوں میں کیسے انسٹاگرام اور فیس بک پر اپنی بنائی ہوئی چیزوں کی تصاویر شیئر کرنا شروع کی تھیں۔ آج کل، یہ پلیٹ فارمز آپ کو اپنی مصنوعات کی کہانیاں سنانے، بنانے کے عمل کی ویڈیوز شیئر کرنے اور اپنے صارفین کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ صرف خوبصورت تصاویر ہی نہیں، بلکہ اپنی چیزوں کے پیچھے چھپی کہانی اور محنت کو بھی بیان کریں۔ لوگ اصل چیز اور اس کے پیچھے کی کہانی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوا ہے کہ جب میں اپنی کسی دستکاری کے بارے میں ایک چھوٹی سی کہانی سناتی ہوں، تو لوگ اس سے زیادہ جڑتے ہیں اور اسے خریدنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں۔ یہ آپ کے ہنر کو دنیا بھر تک پہنچانے کا سب سے آسان اور مؤثر طریقہ ہے۔
معیار اور کہانی پر توجہ
ایک کامیاب دستکار بننے کے لیے، صرف خوبصورت چیزیں بنانا ہی کافی نہیں ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، سب سے اہم چیز معیار (Quality) اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی کہانی (Story) ہے۔ جب آپ کوئی چیز بناتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کا معیار بہترین ہو۔ لوگ ایک بار کی خرید میں اچھی چیز چاہتے ہیں جو پائیدار ہو۔ اس کے علاوہ، ہر دستکاری کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ یہ کہانی اس کاریگر کی ہو سکتی ہے، اس علاقے کی ہو سکتی ہے جہاں سے وہ مواد آیا ہے، یا اس کے بنانے کے عمل کی ہو سکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کہانیاں ہی ہماری مصنوعات کو منفرد بناتی ہیں۔ جب آپ کسی کو بتاتے ہیں کہ یہ قالین کشمیر کی ایک چھوٹی سی بچی نے اپنے ہاتھوں سے بنا ہے یا یہ مٹی کا برتن فلاں علاقے کے کاریگر کی خاندانی روایت کا حصہ ہے، تو لوگ اس چیز سے زیادہ جذباتی طور پر جڑ جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک چیز نہیں رہتی بلکہ ایک یادگار بن جاتی ہے۔ اس طرح، آپ صرف ایک چیز نہیں بیچتے، بلکہ ایک تجربہ اور ایک احساس بیچتے ہیں۔
گل کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے
میرے پیارے دوستو، امید ہے کہ آپ کو دستکاری کے اس خوبصورت سفر میں میرے ساتھ بہت مزہ آیا ہوگا۔ یہ صرف خوبصورت چیزوں کی بات نہیں، بلکہ ہماری ثقافت، ہماری تاریخ اور ہمارے ہنرمندوں کی محنت کی بات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب کو مل کر اپنے اس ورثے کی حفاظت کرنی چاہیے اور اسے مزید فروغ دینا چاہیے۔ یہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس قیمتی ہنر سے روشناس کرائیں اور انہیں اس کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ جب بھی آپ کوئی ہاتھ سے بنی ہوئی چیز خریدیں، تو یاد رکھیں کہ آپ صرف ایک چیز نہیں خرید رہے، بلکہ ایک کہانی، ایک روایت اور ایک ہنر مند کے خوابوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ میرے لیے یہ ایک بہت ہی دلی اور جذباتی تعلق ہے، اور میں چاہتی ہوں کہ آپ سب بھی اسے محسوس کریں۔
آپ کے لیے کام کی باتیں
1. جب بھی آپ کسی مقامی دستکاری میلے یا نمائش میں جائیں، تو وہاں کے ہنرمندوں سے ان کی کہانی ضرور پوچھیں۔ آپ کو بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوں گی۔
2. اگر آپ کے آس پاس کوئی ہاتھ سے کام کرنے والا کاریگر ہے، تو اسے سوشل میڈیا پر اپنی مصنوعات کی تصاویر شیئر کرنے میں مدد دیں۔ یہ ان کی پہنچ کو بڑھا سکتا ہے۔
3. بچوں کو دستکاری کی اہمیت سے آگاہ کریں اور انہیں چھوٹے موٹے ہاتھ کے کام سکھائیں۔ یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارے گا۔
4. ہاتھ سے بنی چیزوں کو تحفے کے طور پر دیں۔ یہ نہ صرف ایک منفرد تحفہ ہو گا بلکہ مقامی ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے گا۔
5. آن لائن پلیٹ فارمز پر مقامی دستکاری کی مصنوعات کو تلاش کریں اور انہیں خرید کر اپنے گھر کی زینت بنائیں۔ اس سے آپ کو انوکھی چیزیں بھی ملیں گی اور ہنرمندوں کو فائدہ بھی پہنچے گا۔
چند اہم باتیں جو یاد رکھنے کی ہیں
پاکستانی دستکاری کا فن صرف خوبصورتی ہی نہیں بلکہ ہماری تاریخ، ثقافت اور معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ صدیوں پرانا ورثہ ہے جو مغلوں کے دور سے لے کر آج تک ہماری شناخت کو نمایاں کرتا آیا ہے۔ ہر علاقے کی اپنی ایک منفرد دستکاری ہے جو وہاں کی ثقافت کو ظاہر کرتی ہے، جیسے سندھ کی اجرک، ملتان کے لیمپ، بلوچستان کی کڑھائی اور کشمیر کے شال۔ یہ ہنر ہزاروں خاندانوں، خاص طور پر خواتین کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے اور مقامی معیشت کو مضبوط بناتا ہے۔ آج کے دور میں آن لائن پلیٹ فارمز اور جدید ڈیزائن کے امتزاج سے یہ فن عالمی سطح پر پہچان بنا رہا ہے۔ حکومت کے اقدامات اور نوجوان نسل کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اس کے روشن مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمیں اپنے ہنرمندوں کو سپورٹ کرنا چاہیے اور اس ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچانا چاہیے۔ معیار اور کہانی پر توجہ دے کر ہم اپنے دستکاری کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: جدید دور میں دستکاری کے اس خوبصورت فن کو مزید کامیاب اور مقبول کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
ج: مجھے لگتا ہے کہ آج کے دور میں جہاں ہر چیز تیزی سے بدل رہی ہے، ہماری دستکاری کو بھی وقت کے ساتھ چلنا ہوگا۔ میں نے اپنے تجربے سے دیکھا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز نے تو جیسے ہر چیز کو آسان بنا دیا ہے۔ اگر ہم اپنے کاریگروں کو ای کامرس کے بارے میں سکھائیں اور انہیں سوشل میڈیا پر اپنی چیزیں دکھانے کا ہنر دیں تو یہ کمال کر سکتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے چھوٹے چھوٹے کاروباری لوگ اپنے ہنر کو فیس بک اور انسٹاگرام پر دکھا کر پوری دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر ہم اپنی روایتی ڈیزائنوں میں تھوڑی جدت لے آئیں، یعنی انہیں آج کے فیشن اور سٹائل کے مطابق ڈھالیں تو نوجوان نسل بھی ان کی طرف زیادہ راغب ہوگی۔ اور ہاں، ہمارے کاریگروں کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کرنا اور انہیں جدید تکنیکوں اور مارکیٹنگ کے طریقوں سے روشناس کرانا بھی بہت ضروری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سرکار اور نجی ادارے مل کر کام کریں تو یہ کوئی مشکل نہیں۔ اس طرح نہ صرف ہمارا ورثہ بچے گا بلکہ اسے عالمی سطح پر بھی نئی پہچان ملے گی۔
س: ہمارے ہاتھ سے بنی چیزیں خریدنے سے ہمارے معاشرے اور فنکاروں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ج: یہ سوال مجھے بہت پسند آیا کیونکہ اس کا جواب سیدھا دل کو چھوتا ہے۔ جب بھی ہم کسی ہاتھ سے بنی چیز کو خریدتے ہیں، تو ہم صرف ایک چیز نہیں خریدتے بلکہ ہم ایک کہانی، ایک ہنر اور ایک پورے خاندان کی امید خریدتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے ایک چھوٹے سے گاؤں کی کاریگر خاتون جب اپنی بنائی ہوئی رلی بیچتی ہے تو اس سے اس کے بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ یہ صرف معاشی آزادی ہی نہیں بلکہ خود اعتمادی بھی لاتی ہے۔ جب ہم مقامی دستکاری کو فروغ دیتے ہیں، تو دراصل ہم اپنے آبائی ہنر اور ثقافت کو زندہ رکھتے ہیں۔ اس سے ہماری شناخت برقرار رہتی ہے اور نئی نسل کو بھی اپنے ورثے پر فخر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا پائیدار عمل ہے جو ہمارے ماحول پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے کیونکہ ہاتھ سے بنی اکثر چیزیں قدرتی اور ماحول دوست ہوتی ہیں۔ سچ کہوں تو، جب آپ اپنے گھر میں کوئی ہاتھ سے بنی ہوئی چیز سجاتے ہیں، تو وہ صرف خوبصورت ہی نہیں لگتی بلکہ اس میں ایک اپنائیت اور روح ہوتی ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملتی۔
س: اصلی اور معیاری دستکاری کی پہچان کیسے کی جائے تاکہ ہم دھوکے سے بچ سکیں؟
ج: یہ بہت اہم سوال ہے، خاص طور پر آج کے دور میں جب نقل کرنا اتنا آسان ہو گیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اصلی دستکاری کی چیزوں کو پہچاننا بہت اچھا لگتا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہاتھ سے بنی چیزوں میں ہمیشہ تھوڑی بہت بے ترتیبی یا “خامیاں” ہوتی ہیں، اور یہی ان کی خوبصورتی ہے۔ مشینوں سے بنی چیزیں بہت یکساں اور پرفیکٹ لگتی ہیں، جبکہ ہاتھ سے بنی چیزوں میں انسانی ہاتھ کا لمس اور اس کی انفرادیت واضح نظر آتی ہے۔ دوسرا یہ کہ مواد کی کوالٹی پر ضرور دھیان دیں۔ اچھے کاریگر کبھی بھی سستے اور غیر معیاری مواد کا استعمال نہیں کرتے۔ اگر آپ رلی یا کڑھائی والی چیز خرید رہے ہیں تو اس کے دھاگے اور کپڑے کو چھو کر محسوس کریں، اس کا رنگ دیکھیں کہ آیا وہ پکا ہے یا نہیں۔ تیسرا یہ کہ، اگر ممکن ہو تو کاریگر یا اس علاقے کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں جہاں سے وہ چیز بنی ہے۔ اکثر اوقات، اصل کاریگر اپنی چیزوں کے پیچھے کی کہانی بتانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، اور یہی کہانی اس چیز کو مزید خاص بنا دیتی ہے۔ میرا تو ماننا ہے کہ اگر ہم اپنی آنکھوں کو تھوڑا زیادہ استعمال کریں اور چیز کو صرف ایک نظر دیکھنے کی بجائے اسے محسوس کریں تو اصلی اور نقلی میں فرق آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔






